خیبر پختونخوا میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی شرح میں اضافہ

خیبر پختونخوا میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی شرح میں اضافہ

خیبر پختون خوا میں خاندان کی آپس میں شادیوں سے تھیلیسیمیا کے مریضوں کی شرح میں اضافہ ہونے لگا۔

 پشاور کے علاقے وزیر باغ کا رہائشی گلہ خان مہینے میں 2 مرتبہ تھیلیسیمیا میں مبتلا اپنے 10 سالہ بچے کو خون لگوانے لاتا ہے۔

گلہ خان کا کہنا ہے کہ پختون کلچر میں اپنے ہی خاندان میں شادیوں کے رواج کی وجہ سے اس کا بیٹا تو اس موذی مرض میں مبتلا ہو گیا تاہم اب وہ چاہتا ہے کہ یا تو اس رواج کو ختم ہونا چاہیے یا شادی سے پہلے ٹیسٹ لازمی کرا لینا چاہیے۔

گلہ خان خیبر پختون خوا میں واحد باپ نہیں جس کی خاندان میں آپس کی شادی کے نتیجے میں بچے تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5000 سے 7000 بچے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ شرح خیبر پختون خوا کی ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق صوبے میں اس وقت 25000 سے زیادہ تھیلیسیمیا کے مریض ہیں۔

تھیلیسیمیا کے مرض کی روک تھام کے لیے خیبر پختون خوا میں 2009ء میں قانون سازی کے تحت شادی سے قبل جوڑے کو ٹیسٹ کرانا بھی لازم تو قرار دیا گیا تاہم اس پر عمل در آمد نہ کرایا جا سکا۔