امریکا سے تعلق رکھنے والے وارن بفٹ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں جو اپنے فلاحی کاموں کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔
برک شائر ہیتھ وے نامی کاروباری ادارے کے مالک وارن بفٹ نے گزشتہ دنوں ایک ارب 10 کروڑ ڈالرز مختلف اداروں کو عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔
یہ ان کے اس طویل المعیاد عہد کا حصہ ہے جس کے تحت وہ اپنی دولت کا زیادہ تر حصہ فلاحی کاموں کے لیے عطیہ کر دیں گے۔
اس حوالے سے اپنی کمپنی کے شیئر ہولڈرز کے نام اپنے نئے خط میں 94 سالہ وارن بفٹ نے بتایا کہ ان کی موت کے بعد ان کی دولت کس طرح تقسیم کی جائے گی۔
150 ارب ڈالرز کے ساتھ وارن بفٹ اس وقت دنیا کے 7 ویں امیر ترین شخص ہیں اور اپنے نئے خط میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے تینوں بچوں کو دولت منتقل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
وارن بفٹ نے انکشاف کیا کہ انہوں نے وصیت کو اپ ڈیٹ کیا ہے تاکہ وضاحت ہوسکے کہ ان کی 99.5 فیصد دولت موت کے بعد کس طرح تقسیم کی جائے گی۔
انہوں نے موروثی دولت کی تقسیم کے حوالے سے کہا کہ 'میں نے کبھی ایک سلطنت قائم کرنے کی خواہش نہیں کی'۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ اتنی بڑی رقم کی تقسیم مؤٖثر طریقے سے کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ ان کی دولت کو عطیہ کرنے کا عمل ان کے بچوں کی زندگی کی مدت سے بھی زیادہ طویل ہو، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے 3 ممکنہ جانشین ٹرسٹی کے نام بھی دیے ہیں، تاکہ ضرورت پڑنے پر کام جاری رکھ سکیں۔
خیال رہے کہ وارن بفٹ کی موت کے بعد ان کے تینوں بچے ایک ٹرسٹ کے ذریعے دولت کو مختلف کاموں کے لیے عطیہ کریں گے۔
ان کے سب سے بڑے بیٹے ہورڈ کی عمر 71 سال ہے جبکہ بیٹی سوزی کی عمر 69 اور چھوٹے بیٹے پیٹر کی عمر 66 سال ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وارن بفٹ نے دولت کی تقسیم کے متبادل نظام کو بھی مدنظر رکھا ہے۔
Card image cap
دنیا کا سب سے بڑا پودا زمین کا سب سے زیادہ عمر والا جاندار بھی قرار

امریکا ریاست یوٹاہ کے فش لیک نیشنل فاریسٹ میں دنیا کا سب سے بڑا پودا Pando ٹری موجود ہے۔
سرسری نظر میں وہاں متعدد درختوں پر مشتمل ایک جنگل نظر آتا ہے مگر 2008 میں سائنسدانوں نے تصدیق کی تھی کہ 40 ہزار یا اس سے زائد تنے بنیادی طور پر ایک ہی جڑ کے نظام سے منسلک ہیں اور جینیاتی طور پر ایک جیسے ہیں۔
آسان الفاظ میں یہ ایک بہت بڑا پودا ہے جو 103 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
اب سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ پودا دنیا کا سب سے زیادہ عمر والا جاندار ہے۔
ان کا تخمینہ ہے کہ اس پودے کی کم از کم عمر 34 ہزار سال کے قریب ہے اور اس کی زندگی کا آغاز آخری برفانی عہد کے اختتام سے قبل ہوا۔
مگر ان کا غیر مصدقہ تخمینہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس پودے کی نشوونما لاکھوں سال سے ہو رہی ہو۔
ابھی اس پودے کی عمر کی باضابطہ تصدیق ہونا باقی ہے۔
اس کی عمر کی تصدیق کے لیے محققین نے جڑوں، پتوں اور چھال کے 500 ٹکڑے حاصل کیے اور پھر ڈی این اے کا تجزیہ کیا۔
محققین نے ان نمونوں کے تجزیے سے 4 ہزار جینیاتی ورژنز کو شناخت کیا اور مختلف میوٹیشنز کا علم ہوا۔
ان کے ایک ماڈل سے یہ عندیہ ملا کہ اس پودے کی عمر 16 سے 80 ہزار  سال کے درمیان ہوسکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی سائنسی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ ایک پری پرنٹ سرور  bioRxiv  میں شائع ہوئے۔
واضح رہے کہ ابھی زمین کے قدیم ترین حیات جاندار کا اعزاز ریاست کیلیفورنیا کے وائٹ مانٹینز میں ایک درخت کے پاس ہے جس کی عمر 5 ہزار سال سے زائد ہے۔

Card image cap
بحری جہاز سے گرکر سمندر میں 24 گھنٹے تک بھٹکنے والا شخص کرشماتی طور پر زندہ بچ گیا

ایک بحری جہاز میں کام کرنے والا شخص سمندر میں گر کر 24 گھنٹوں تک پانی میں بہنے کے باوجود خوش قسمتی سے زندہ بچنے میں کامیاب ہوگیا۔
ایسا ایک مقامی ماہی گیر اور ایمرجنسی امدادی ٹیموں کے فوری اقدامات سے ممکن ہوا۔
اس ملاح (اس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا) کے ساتھ یہ واقعہ آسٹریلیا کے مشرقی ساحلی علاقے میں پیش آیا اور اس کے بچنے کو بیشتر افراد نے کرشمہ قرار دیا ہے۔
لگ بھگ 24 گھنٹوں تک یہ شخص جنوبی بحر الکاہل کے ٹھنڈے پانی میں بھٹکتا رہا۔
ایک جاپانی کمپنی کا بحری جہاز جاپان سے آسٹریلیا پہنچا تھا اور وہاں عملے کو احساس ہوا کہ ایک فرد غائب ہے۔
اس کی تلاش اس وقت شروع ہوئی جب وہ اپنے فرائض کو نبھانے کے لیے نہیں پہنچا جس کے بعد عملے نے فوری اقدامات کیے۔
عملے کی جانب سے نیوکیسل کی بندرگاہ کے حکام سے فوری رابطہ کیا گیا، جس نے پولیس اور آسٹریلین میری ٹائم سیفٹی اتھارٹی کو الرٹ کیا، جس کے بعد اس ملاح کی تلاش شروع ہوگئی۔
امدادی ٹیمیں فوری طور پر 2 کشتیوں میں اس جگہ پر پہنچی اور پھر بعد میں ہیلی کاپٹرز سے بھی ملاح کی تلاش شروع ہوگئی۔
امدادی ٹیموں نے نیو کیسل کے ساحلی علاقے میں 7 کلومیٹر تک گمشدہ ملاح کو تلاش کیا اور اس کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کیا۔
حکام کے مطابق ہر جگہ بہت زیادہ پانی تھا اور ہمیں لگا کہ وہ بہت زیادہ دور نہیں جاسکتا، مگر جب آپ سمندری بہاؤ میں تیرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر یہ تلاش چیلنج بن جاتی ہے۔
سمندری بہاؤ اور ٹھنڈا پانی رات بھر سمندر میں رہنے والے کسی بھی فرد کے لیے جان لیوا خطرات ثابت ہوتے ہیں۔
اگلے دن ایک مقامی ماہی گیر نے گمشدہ ملاح کو سمندر میں بہتے ہوئے دیکھا۔
وہ ملاح بہت زیادہ تھکاوٹ کا شکار نظر آرہا تھا اور ساحل سے ساڑھے 3 کلومیٹر دور تھا۔
وہ لائف جیکٹ پہنے ہوئے مدد کے لیے پکار رہا تھا۔
اس شخص کو فوری طور پر ایک اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کی نگہداشت کی جا رہی ہے جبکہ اس میں hypothermia کی علامات بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔

Card image cap
وہ ملک جہاں کی حکومت کا ہر بالغ شہری کو ایک لاکھ 32 ہزار روپے دینے کا اعلان

ایک ملک نے اپنے تمام شہریوں کو 478 ڈالرز (ایک لاکھ 32 ہزار پاکستانی روپے سے زائد) دینے کا اعلان کیا ہے۔
درحقیقت اس ملک میں رہنے والوں کے ساتھ ساتھ اس کے بیرون ملک مقیم افراد کو بھی یہ رقم دی جائے گی۔
جی ہاں واقعی جنوبی امریکی ملک گیانا نے خام تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو عوام میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
گیانا کے تمام 18 سال یا اس سے زائد عمر کے شہریوں کو فی کس ایک لاکھ گیانیز ڈالرز دیے جائیں گے، بس انہیں پاسپورٹ یا شناختی کارڈ دکھانا ہوگا۔
گیانا کے جو شہری بیرون ملک مقیم ہیں، وہ بھی اس کے حقدار ہوں گے مگر انہیں یہ رقم لینے کے لیے اپنے وطن واپس آنا ہوگا۔
اس حیرت انگیز پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے گیانا کے صدر عرفان علی نے کہا کہ 'گزشتہ چند دنوں کے دوران لاکھوں شہریوں نے مجھ سے اور میری کابینہ کے اراکین سے رابطہ کیا اور گزشتہ ہفتے کیے گئے اقدامات پر حمایت کا اظہار کیا'۔
پہلے حکومت کی جانب سے اپنے ملک کے ہر گھرانے کو 2 لاکھ گیانیز ڈالرز دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر پھر چند شہریوں کے خدشات پر اس میں تبدیلی کی گئی۔
ان شہریوں کا کہنا تھا کہ ایسے نوجوان افراد کو یہ امداد حاصل نہیں ہوسکے گی جو اب تک اپنا خاندان نہیں بنا سکے ہیں۔
گیانا کے صدر کا کہنا تھا کہ 'ہر فرد کو اس پروگرام کا حصہ بنانے سے ان خدشات پر قابو پانے میں مدد ملے گی کہ نوجوانوں کو یہ امداد نہیں مل سکے گی'۔
گیانا کی مجموعی آبادی 8 لاکھ ہے اور 4 لاکھ کے قریب افراد میں یہ رقم تقسیم کیے جانے کا امکان ہے۔
مگر گیانا وہ ملک ہے جس کی معیشت میں تاریخی بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور اس کے حجم میں 5 سال کے دوران 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔
ایسا خام تیل کی برآمد سے ممکن ہوا حالانکہ یہ وہ ملک ہے جس کا ایک دہائی قبل جی ڈی پی اس خطے میں سب سے کم تھا۔
مگر 2015 میں خام تیل کے ذخائر کی دریافت نے گیانا کی قسمت بدل ڈالی اور اب وہ دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہوچکا ہے۔


موسم خزاں میں پتوں کی رنگت کیوں تبدیل ہو جاتی ہے؟

خزاں کی آمد کے ساتھ ہی درختوں کے پتوں کی رنگت سبز نہیں رہتی بلکہ وہ شوخ زرد یا سرخ رنگ کے ہو جاتے ہیں، مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس کا جواب کافی دلچسپ ہے۔
سال کے بیشتر مہینوں میں کلوروفل نامی کیمائی مرکب پتوں کو سورج کی روشنی توانائی میں تبدیل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
مگر موسم خزاں میں درجہ حرارت گھٹ جاتا ہے جبکہ دن کا دورانیہ بھی کم ہو جاتا ہے جس کے باعث درختوں کو سورج کی کم روشنی ملتی ہے اور پتوں میں موجود کلوروفل مقدار گھٹ جاتی ہے۔
جب پتوں میں کلوروفل کی سطح گھٹ جاتی ہے تو ان کی رنگت زرد، سرخ یا نارنجی ہو جاتی ہے۔
عام طور پر خزاں میں پتوں کے ایسے خوبصورت رنگ اس وقت دیکھنے میں آتے ہیں جب دن روشن ہوتا ہے مگر موسم خشک اور ٹھنڈا ہو تا ہے۔
جن مقامات میں موسم ابر آلود رہتا ہے یا گرم ہوتا ہے وہاں اس طرح پتوں کی رنگت تبدیل نہیں ہوتی۔
آسان الفاظ میں خزاں کے موسم میں سورج کی کم روشنی پتوں کی سبز رنگت کو بدلنے کا باعث بنتی ہے۔
موسم بدلنے پر درخت پتوں اور شاخوں کے درمیان ایک حفاظتی رکاوٹ بھی بناتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ غذائی اجزا اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مگر موسم سرما میں پتوں کے لیے اپنا تحفظ کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ شاخ سے الگ ہو کر زمین پر گر جاتے ہیں۔

کراچی سے لندن کا سفر محض ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرنیوالا طیارہ تیار

چین میں مستقبل کے ایک ایسے مسافر طیارے نے کامیاب آزمائشی اڑان بھری ہے جو کراچی سے نیویارک کا فاصلہ ڈیڑھ سے پونے 2 گھنٹے میں طے کرسکے گا۔

یونشینگ نامی یہ طیارہ ممکنہ طور پر 3 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرسکے گا۔

یہ رفتار آواز کی رفتار سے دوگنا تیز ی سے سفر کرنے والے کونکورڈ طیارے سے بھی دوگنا زیادہ ہوگی۔

چینی کمپنی بیجنگ ٹرانسپورٹیشن نے اس طیارے کو تیار کیا ہے اور اس کے پروٹوٹائپ ماڈل کی کامیاب آزمائش 26 اکتوبر کو کی گئی۔

کمپنی کے مطابق طیارے کا جدید ترین ایرو اسپیس ڈیزائن اس کی رفتار بڑھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

ہیلی کاپٹر کی طرح عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کی صلاحیت رکھنے والا یہ طیارہ 60 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرسکے گا۔

کمپنی نے طیارے کی 2027 تک طیارے کی کمرشل پرواز کا ہدف طے کیا ہے۔

اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو کمرشل سپر سونک طیاروں پر سفر کے نئے عہد کا آغاز ہوگا۔

چینی طیارے کے انجن کی مکمل گنجائش کا جائزہ نومبر 2024 میں شیڈول اگلی آزمائش میں لیا جائے گا۔

اسپیس ٹرانسپورٹیشن کے مطابق طیارے کی ٹیکنالوجی سے اسے بہت زیادہ بلندی پر پرواز کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

اس طرح نہ صرف طیارہ تیز رفتاری سے پرواز کرسکے گا بلکہ اس کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی جبکہ سفر آرام دہ ہوسکے گا۔

کمپنی نے بتایا کہ اس کے سپر سونک طیاروں کو عالمی سطح پر کمرشل پروازوں اور مستقبل میں خلائی سیاحت کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

کمپنی کے مطابق وہ خلائی سیاحت کے اخراجات کو کم کرنے کی خواہشمند ہے۔

خیال رہے کہ ایک امریکی کمپنی بوم سپر سونک کی جانب سے بھی ایکس بی 1 نامی سپر سونک طیارے پر کام کیا جا رہا ہے۔

وہ کمپنی اسے پہلے کمرشل سپر سونک طیارے کے طور پر متعارف کرانے کی خواہشمند ہے۔

بوم سپر سونک کے تجرباتی طیارے کو جولائی 2024 میں فارنبورو انٹرنیشنل ائیر شو کے موقع پر پیش کیا گیا تھا۔

بوم سپر سونک کے بانی اور چیف ایگزیکٹو Blake Scholl نے ائیر شو کے موقع پر اپنے منصوبوں پر بات کی۔

انہوں نے کہا کہ بوئنگ یا ائیربس کی جانب سے کسی نئے طیارے کو متعارف کرائے 2 دہائیاں گزر چکی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ عہد رفتار کا ہے اور وہ بھی سپر سونک رفتار کا۔

اب تک دنیا بھر میں دہائیوں قبل 2 سپر سونک طیارے تیار کیے گئے تھے ایک سوویت Tupolev Tu-144 اور دوسرا برطانوی / فرنچ کونکورڈ، جس نے آخری بار اکتوبر 2003 میں اڑان بھری تھی۔

مستقبل میں بوم سپر سونک کا تیار کردہ طیارہ 1300 میل فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے لندن سے نیویارک کا سفر محض ساڑھے 3 گھنٹے میں طے کرسکے گا۔

آسٹریلیا کے ساحل پر عجیب و غریب مخلوق اُمڈ آئی

آسٹریلیا کے ساحل پر عجیب و غیر آبی مخلوق نے دیکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق جنوبی آسٹریلیا کے ساحل ہارس شو بے پر ایک خاتون اپنے کتے کے ہمراہ چہل قدمی پر گئی جہاں اس نے ساحل پر دور تک پھیلی دلچسپ مخلوق کو دریافت کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ آبی مخلوق 3 میڑ لمبی تھی جبکہ اس کا سر  شیل نما تھا، خاتون شہری نے ان تصاویر کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا اور اپنی حیرانگی کا اظہار کیا۔

اس حوالے سے یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کے میرین ایکولوجسٹ ڈاکٹر زو ڈبلڈے نے بتایا کہ یہ مخلوق کچھ اور نہیں بلکہ گوز بارنیکلز ہے جو سمندر میں چٹانوں سے جڑی ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ متاثر کن جھرمٹ ممکنہ طور پر اپنے اصل لنگر سے علیحدہ ہوگیا تھا، جسے 'مدر شپ' کا نام دیا گیا ہے اور یہ لہروں سے بہتا ہوا ساحل پر  آپہنچا۔

ڈاکٹر زو ڈبلڈے نے یہ بھی بتایا کہ گوز بارنیکلز عام طور پر آسٹریلیا کے پانیوں میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کا اتنی بڑی تعداد میں دیکھا جانا غیر معمولی ہے۔

ایک ماہ تک جنگلات میں گم رہنے والا شخص مشرومز، بیریز اور پانی کے ذریعے زندہ بچنے میں کامیاب

امریکا کے ایک نیشنل پارک میں ایک ماہ تک بھٹکنے والے شخص نے مشروم، بیریز اور پانی کے ذریعے اپنی زندگی کو بچایا اور جب اسے دریافت کیا گیا وہ لگ بھگ مرنے والا تھا۔

اس شخص نے امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے زندگی کے اس خوفناک تجربے کے بارے میں بتایا۔

رابرٹ شوک جولائی 2024 کے اختتام پر واشنگٹن اسٹیٹ کے North Cascades نیشنل پارک میں گم ہوگئے تھے اور چند ہفتوں تک کوئی بھی انہیں تلاش نہیں کرسکا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خود کو قریب المرگ تصور کر رہے تھے اور جب انہیں موت کا یقین ہوگیا تو آخری بار مدد کے لیے چلانے کا فیصلہ کیا اور اسی فیصلے نے ان کی زندگی بچائی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس جدوجہد نے ان کی جسمانی عمر میں کئی سال کا اضافہ کر دیا مگر وہ اب خود کو بہتر محسوس کر رہے ہیں۔

رابرٹ شوک کے مطابق وہ 31 جولائی کو نیشنل پارک کے ہینیگن پاس میں پہنچے تھے اور انہوں نے اپنے کتے کے ساتھ 20 میل تک ٹریکنگ کی منصوبہ بندی کی تھی۔

مگر 2021 اور 2022 میں جنگلات میں لگنے والی آگ نے اس ٹریک کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا تھا اور ان کے پاس جو نقشہ تھا وہ پرانا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ وہ راستہ بھٹک گئے اور واپس جانا بھی ممکن نہیں رہا۔

ان کے فون کی بیٹری دوسرے دن ڈیڈ ہوگئی جبکہ تیسرے دن انہوں نے اپنے کتے کو گھر کا راستہ تلاش کرنے کے لیے روانہ کیا۔

مقامی حکام نے رابرٹ شوک کی گاڑی کو دیکھا تھا اور پھر ان کے کتے فریڈی کو اسٹیٹ پارک میں دریائے Chiliwack کے قریب دریافت کیا، جس کے بعد ان کی تلاش شروع ہوئی۔

رابرٹ شوک کی والدہ جین تھامسن کے مطابق ان کا بیٹا اپنا بٹوہ گاڑی میں چھوڑ گیا تھا جبکہ گاڑی کا ایک شیشہ آدھا کھلا ہوا تھا۔

انہوں نے اپنے بیٹے کی گمشدگی کو رپورٹ کیا کیونکہ وہ ان سے رابطہ کرنے میں ناکام رہی تھیں۔

رابرٹ شوک کی تلاش کی ابتدائی کوششیں ناکام رہی تھیں مگر ان کی والدہ نے ہمت نہیں ہاری۔

رابرٹ شوک کے مطابق انہوں نے ریچھوں کے خالی کردہ ٹھکانوں پر قبضہ کرلیا تھا اور بیریز کھا کر گزارہ کرنے لگے جبکہ ایک بار ایک بڑا مشروم بھی ملا جس کا ذائقہ پیزے جیسا تھا، جبکہ پانی آسانی سے دستیاب تھا۔

ایک موقع پر انہوں نے ہیلی کاپٹر کو بھی دیکھا اور مدد کے لیے چیخ پکار کی مگر وہ عملے کی توجہ حاصل نہیں کرسکے۔

انہوں نے بتایا کہ اکثر انہیں وقت کا علم نہیں ہوتا تھا اور وہ سوچتے تھے کہ 'میں اسے جلد ختم کرنا چاہتا ہوں'۔

30 اگست کو وہ دریا کے کنارے پر موجود تھے اور انہیں لگا کہ یہ ان کی آخری رات ثابت ہوگی۔

اس موقع پر انہوں نے آخری بار مدد کے لیے چیخنے کا فیصلہ کیا اور خوش قسمتی سے وہاں قریب پیسیفک نارتھ ویسٹ ٹریل ایسوسی ایشن کا کیمپ موجود تھا۔

ایسوسی ایشن کے اراکین کیمپ میں واپس لوٹ رہے تھے جب انہوں نے رابرٹ شوک کی آواز سنی اور انہیں دریا کے کنارے میں عریاں حالت میں دریافت کیا۔

ایک فرد نے رابرٹ شوک کو کپڑے دیے مگر ان کی حالت اچھی نہیں تھی۔

ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق زندگی کو اس طرح کے مشکل حالات میں برقرار رکھنے کی جدوجہد نے رابرٹ شوک کو جسمانی طور پر بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔

انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک اسپتال منتقل کیا گیا اور چند دن تک انجیکشن کے ذریعے غذا فراہم کی گئی۔

بتدریج وہ اپنی والدہ سے بات کرنے لگے اور حالت بہتر ہونے کے بعد انہیں اسپتال سے جانے کی اجازت دے دی گئی جس کے بعد وہ اوہائیو چلے گئے۔

اب بھی ان کے جوڑوں میں تکلیف ہوتی ہے مگر وہ خود کو بہتر محسوس کرتے ہیں اور انہوں نے بتایا کہ اس جدوجہد سے ان کی جسمانی عمر میں جو اضافہ ہوا، وہ اسے ریکور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔