ایبٹ آباد میں چیتے نے حملہ کرکے تین افراد کو شدید زخمی کردیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق ایبٹ آباد کے تھانہ بکوٹ کی حدود بیروٹ میں چیتے کے حملے کے نتیجے میں 3 افراد شدید زخمی ہوگئے۔
ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ چیتے کے حملے سے ایک خاتون سمیت 2 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ریسکیو حکام کا بتانا ہے کہ حملے کے دوران شور شرابے پر لوگ جمع ہوئے اور چیتے پر پتھراؤ کیا جس کے باعث چیتا زخمی ہوگیا جسے مقامی افراد نے باندھ دیا۔
بعدازاں پولیس اور وائلڈ لائف کی ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور زخمی افراد کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال بھی ایبٹ آباد میں 6 چیتوں کو مارا گیا تھا، چیتے کی نایاب نسل اب گلیات میں ناپید ہوگئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی ایبٹ آباد کے علاقے ایوبیہ میں چیتے کے حملے سے بزرگ شہری زخمی ہوگیا تھا۔
سرکل بکوٹ کے علاقے یو سی پلک کے گاوں ملکوٹ میں چیتے نے دن کے وقت بزرگ شخص پر حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 55 سالہ رحیم داد شدید زخمی ہوگئے تھے تاہم موقع پر ہی موجود مقامی نوجوان نے بزرگ کی جان بچائی اور اسے طبی امداد کے لیے فوری طور پر سول اسپتال مری منتقل کردیا تھا۔
ایوبیہ ہی کے مقامی نوجوان نے بزرگ شہری کو بچانے کے بعد دیگر مقامی دوستوں کی مدد سے چیتے کو مار دیا تھا۔
سرگودھا میں شادی کے 6 سال بعد خاتون کے ہاں بیک وقت 4 بچوں کی پیدائش ہوئی جبکہ دو بچے انتقال کرگئے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پنجاب کے شہر سرگودھا کے نجی اسپتال میں شادی کے 6 سال بعد خاتون کے ہاں 4 بچوں کی پیدائش ہوئی جن میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔
اسپتال ذرائع کا بتانا ہے کہ وزن نہایت کم ہونے کی وجہ سے دو بیٹے انتقال کرگئے۔
اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں بچیاں صحت مند ہیں جنہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا گیا ہے۔
محنت کش عرفان اور ان کی اہلیہ کا تعلق تحصیل ساہیوال کے علاقے پٹھان کوٹ سے ہے۔
رواں سال مارچ میں فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی رہائشی خاتون نے بیک وقت پانچ بچوں کو جنم دیا تھا جن میں سے تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل تھے۔
کارٹون نیٹ ورک جو ایک عرصے تک بچوں کی پہلی پسند رہا اس کے بند ہونے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خبریں زیرگردش ہیں۔
ایکس پر شیئر کی گئی ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کارٹون نیٹ ورک چینل بند ہو رہا ہے جبکہ اس پوسٹ کے ساتھ استعمال ہونے والا ہیش ٹیگ بھی وائرل ہو رہا ہے، کئی صارفین جن کا بچپن یہ چینل دیکھتے گزرا ہے وہ اس پوسٹ کو شیئر کرکے مایوسی کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔
کارٹون نیٹ ورک چینل اس طرح کی خبریں سامنے آنے کے بعد پہلے بھی یہ واضح کرچکا ہے کہ چینل بند نہیں ہوگا اور اس حوالے سے تمام دعوے غلط ہیں، تاہم اس بار شیئر کی گئی پوسٹ نے صارفین کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔
تاہم ہیش ٹیگ RIPCartoonNetwork کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے، اس کی حیقیت کچھ اور ہے، دراصل کارٹون نیٹ ورک بند نہیں ہو رہا ہے اور نہ ہی یہ چینل ختم ہوا ہے۔
ہیش ٹیگ RIPCartoonNetwork کو شیئر کرنے کا رجحان صارفین نے ایک دوسرے کو متحرک دیکھ کر اپنا لیا ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ نیٹ ورک کے ساتھ مسائل موجود ہیں۔
ڈسکوری کے ساتھ انضمام کے بعد سے یہ اور وارنر کی دیگر پراپرٹیز عام طور پر برے دور سے گزر رہی ہیں، سی ای او ڈیوڈ زسلاف مسلسل ایسے فیصلے کر رہے ہیں جسے ناظرین کی جانب سے پذیرائی نہیں مل رہی۔
کارٹون نیٹ ورک گروپ کی ساکھ بھی اس وقت متاثر ہو رہی ہے لیکن ان سب کے باوجود امکان ہے کہ کارٹون نیٹ ورک کہیں نہیں جا رہا ہے جبکہ نئے پروگرامنگ پر بھی کام جاری ہے۔
کارٹون نیٹ ورک کو کووڈ 19 اور انضمام کے بعد کٹوتی کا جھٹکہ لگا ہے جس نے وارنر برادرز ڈسکوری ڈویژن کو متاثر کیا تھا اور چینل کے بند کرنے کی افواہیں زور پکڑ گئی تھیں۔
خیال رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کا دعویٰ وائرل ہورہا ہے جس کارٹون نیٹ ورک بند ہونے کی اطلاع دی گئی بلکہ پہلے بھی اس طرح کی کئی خبریں وائرل ہو چکی ہیں۔
عمومی طور پر امریکی قانون سازی کے دو اہم دھڑوں، نیلے (ڈیموکریٹکس) اور سرخ (ریپبلکن) کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ بدنامِ زمانہ ٹک ٹاک ایپ پر پابندی کا بل امریکی ایوانِ نمائندگان سے باآسانی منظور ہونا حیران کُن تھا۔ حمایت میں 352 اور 65 مخالف ووٹوں کے ساتھ اس بل کو دوطرفہ حمایت حاصل رہی جبکہ امریکا کے اہم مسائل (جیسے سستی صحت کی سہولیات کی فراہمی، طلبہ کے قرضوں کی معافی یا یوکرین کی نہ ختم ہونے والی جنگ میں فنڈنگ وغیرہ) کو بہت کم ایسی توجہ حاصل ہوتی ہے۔
بل میں ٹک ٹاک کے مالکان بائی ٹیڈنس کو ستمبر تک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹاک
ٹاک فروخت کرنے کا کہا گیا ہے ورنہ اسے امریکا میں پابندی کا سامنا کرنا
پڑے گا۔ بل پیش کرنے والوں نے اس کا جواز بتایا کہ چینی حکومت امریکا میں
ٹک ٹاک کے تقریباً 17 کروڑ صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرسکتی ہے اور
الگورتھم کو اپنے حق میں ’تبدیل‘ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ یوں وہ اس
مواد کو کنٹرول کرتے ہیں جو امریکی ٹک ٹاک صارفین دیکھتے ہیں۔ نینسی پلوسی
اور دیگر امریکی قانون سازوں نے دعویٰ کیا کہ یہ قومی سلامتی کے لیے براہ
راست خطرہ ہے جو کسی صورت قابلِ برداشت نہیں۔
کیل کا استعمال کئے بغیر لکڑی سے تیار کی گئی خوبصورت مسجد نے دیکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔صوبہ خیبرپختونخوا کی وادی سوات کے علاقے باغ ڈھیرئی میں دیار کی قیمتی لکڑی سے تیار کی گئی ایک مسجد اپنی مثال آپ ہے، مسجد کی تعمیر میں استعمال کی گئی دیار کی نایاب لکڑی اور اس پر بنائے گئے خوبصورت نقش و نگار فن تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر اس انداز سے کی گئی ہے کہ کہیں ایک کیل بھی استعمال نہیں ہوئی اور پوری مسجد میں کوئی ستون بھی نہیں ہے، مسجد کے در و دیوار اور منبر سمیت چھت اور فانوس تک دیار کی قیمتی لکڑی کے بنائے گئے ہیں اور اس کی تعمیر کو مکمل ہونے میں 8 سال لگے ہیں۔
مسجد کی تعمیر سے متعلق علاقے کے عمائدین کا کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر 2001ء میں شروع ہوئی اور 2008ء میں مکمل ہوئی جس کی تعمیر میں صرف دیار کی لکڑی استعمال کی گئی ہے اور لکڑی کا ہر پھول دوسرے پھول سے مختلف ہے جبکہ تعمیر کے دوران ہاتھ سے کی گئی کندہ کاری کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس مسجد کے منتظم محمد عمر نے بتایا کہ کندہ کاری کا کام سوات کے علاوہ چنیوٹ اور رسال پور کے کاریگروں سے کروایا گیا ہے، رمضان کے مہینے میں اس مسجد میں لوگ دور دور سے آتے ہیں اور کافی رش ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں آج 21 مارچ کو دن اور رات کا دورانیہ برابر ہو جائے گا۔
آج دن اور رات کا دورانیہ بارہ بارہ گھنٹوں پر محیط ہوگا، اس کے بعد راتوں کا دورانیہ کم اور دن کا دورانیہ بڑھنے لگے گا۔
ماہرین کے مطابق آج کے دن سورج اپنا سفر طے کرتے ہوئے اس نقطۂ آغاز پر پہنچے گا جہاں اس نے پہلے روز اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔
21 مارچ نئے شمسی سال کا آغاز ہے بعض ممالک میں نئے شمسی سال کے پہلے دن کو عید کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔
سردی سے بچنے کے لئے بہت سے پہناوے زیب تن کرنا پڑتے ہیں لیکن ٹوپی بہرحال سردیوں کی ڈریسنگ کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ ٹوپیوں میں بہت سی طرز کی کیپس آج کل مقبول ہیں لیکن پھندنے والی روایتی اونی کیپ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی بچوں اور بڑوں میں، خواتین اور مردوں میں یکساں مقبول ہے۔ پھندنے والی ٹوپی اوڑھتے تو سبھی ہیں لیکن شاید ہی کوئی جانتا ہو گا کہ اس ٹوپی میں پھندنا کیوں ہوتا ہے۔ چلیئے آج ہم آپ کو یہ اہم راز بتا ہی دیتے ہیں۔
اون کی بنی ہوئی روایتی ٹوپی کے اوپر اونی دھاگوں کی گول گیند جسے عام طور پر پھندنا کہا جاتا ہے دراصل سر کر اوپر کی سمت کسی نیچی چھت وغیرہ سے ٹکرا جانے کی صورت میں چوٹ سے بچانے کے لئے ٹوپی میں شامل کیا جاتا تھا، خود تجربہ کر کے دیکھ لیجئے، اونی ٹوپی کا پھندنا بظاہر سجاوٹی حصہ ہی دکھائی دیتا ہے لیکن اچانک بے پروائی سے اوپر اٹھتے ہوئے سر کسی چھت یا شیلف کے کنارے سے ٹکرا جائے تو یہ پھندنا شاک ابزاربر کا کام کرتا ہے اور یہی اس کی اونی ٹوپی میں موجودگی کی وجہ ہے۔ اس کی خوبصورتی بعد میں اسے اونی ٹوپی کے ڈیزائن کا مستقل حصہ بنانے میں بنیادی کردار ادا کرنے لگی۔
پھندنے والی ٹوپی کو انگلش میں پوم پوم کیپ بھی کہا جاتا ہے۔
اونی ٹوپی کے اوپر اونی گیند یا پھول کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور اسکینڈے نیویا کے وائکنگ عہد سے اس کا آغاز ہوا۔
اس عہد میں اس طرح کی ٹوپیوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا تھا تاکہ سر اور کانوں کو اس خطے کی شدید سردی سے بچایا جا سکے۔
8 ویں صدی کے ایک مجسمے میں اس طرح کی ٹوپی کو دیکھا گیا ہے۔
مگر جب یہ پھندنا اتنا بڑا نہیں ہوتا تھا بلکہ 18 ویں صدی میں فرانس میں اس کے حجم میں تبدیلی کی گئی۔
فرانس کے بادشاہ نیپولین کی فوج کے ایک ڈویژن کی فوجی وردی میں اس طرح کی پھندنے والی ٹوپیوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔
ان ٹوپیوں کے پھندنے کے مختلف رنگوں سے فوجی عہدیداروں کا رینک معلوم ہوتا تھا۔
کزن سے شادی سے بچنے کیلئے امریکی فضائیہ میں شامل ہونیوالی پاکستانی لڑکی کی دلچسپ کہانی
اسی عہد میں فرانسیسی ملاح بھی ان ٹوپیوں کا استعمال کرتے تھے تاکہ ان کے سروں کو بحری جہازوں کے کیبن سے تحفظ مل سکے کیونکہ ان کی چھت بہت نیچے ہوتی تھی۔
ملاحوں نے سر کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پھندنے کے حجم کو بڑھایا تھا۔
جب سے ان ٹوپیوں کو اسی شکل میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
مگر ان ٹوپیوں کو اصل مقبولیت 1930 کی دہائی کے معاشی بحران کے دوران ملی اور ان کا استعمال اس لیے عام ہوگیا۔ تب سے اب تک فیشن میں کچھ بھی تبدیلی آئے پھندنے والی ٹوپی یورپ امریکہ اور باقی دنیا میں سردیوں کے لباس کا ایک تلازمہ سمجھی جاتی ہے۔