وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات کا اعلامیہ وزیراعظم آفس نے جاری کردیا۔

وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے امریکی صدر کو امن کا علمبردار قرار دیا، یہ ملاقات گرمجوشی اور خوشگوار ماحول میں ہوئی۔

اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمے کے لیے مخلصانہ کوششوں میں مصروف ہیں۔

اعلامیے میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کی جرات مندانہ، دلیرانہ اور فیصلہ کُن قیادت کو سراہا اور کہا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں سہولت فراہم کی۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیا میں ایک بڑی تباہی کو ٹالنے میں مدد فراہم کی۔

اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے غزہ میں جنگ کے فوری خاتمے کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں اور نیویارک میں مسلم دنیا کے اہم رہنماؤں کو مدعو کرنے کے اقدام کو بھی سراہا۔

واضح رہے کہ اوول آفس میں وزیراعظم شہباز شریف اور صدر ٹرمپ کی ملاقات ایک گھنٹہ 20 منٹ جاری رہی تھی۔

امریکی صدر سے ملاقات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف واشنگٹن سے نیویارک پہنچ گئے ہیں جہاں وہ آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔


Card image cap
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس شروع

فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے یو این میں سعودی عرب اور فرانس کی سربراہی میں کانفرنس بھی آج ہوگی۔

ترجمان وائٹ ہاؤس کیرولین لیوٹ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ اجلاس کے سائیڈلائن میں عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔

ٹرمپ کی پہلے اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ملاقات ہوگی، صدر ٹرمپ پاکستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکیہ، مصر، اردن اور انڈونیشیا کے سربراہان سے بھی ملیں گے، یوکرین، ارجنٹائن اور یورپی یونین رہنماؤں سے بھی ٹرمپ کی ملاقات ہوگی۔

اقوام متحدہ (یواین) میں فلسطین کے 2 ریاستی حل کےلیے سعودی عرب اور فرانس کی سربراہی کانفرنس آج ہوگی۔

فلسطین سے متعلقہ کانفرنس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار شریک ہوں گے۔یو یارک میں قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی میزبانی میں عرب اسلامی وزرائے خارجہ کی مشاورت ہوئی۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق مشاورت میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی شریک ہوئے، اجلاس میں وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں یکساں موقف اپنانے پر مشاورت کی۔

مشاورتی اجلاس میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اردن، مصر، انڈونیشیا، سعودی عرب اور ترکیے کے وزرائے خارجہ موجود تھے۔

اجلاس میں عالمی امور پر مشترکہ مؤقف اور مربوط حکمتِ عملی اپنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا، اسحاق ڈار نے اسلامی ملکوں کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات اور تعاون پر زور دیا۔


فرانس نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا

فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم مزید انتظار نہیں کرسکتے، غزہ میں جنگ روکنے کا وقت آگیا ہے۔

صدر میکرون نے کہا کہ کوئی بھی چیز جاری جنگ کا جواز نہیں بنتی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ حماس بھی دیگر 48 یرغمالیوں کو رہا کرے۔انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو حقوق دینے سے اسرائیلیوں کے حقوق چھین نہیں جاتے، صدر میکرون نے دیگر ممالک پر بھی روشنی ڈالی جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا۔

صدر میکرون کا کہنا تھا اندورا، آسٹریلیا، بیلجیم، لکسمبرگ، مالٹا، مراکش، برطانیہ، کینیڈا اور سان مارینو ان ممالک میں شامل ہیں۔

فرانسیسی صدر نے کہا کہ ان ممالک نے جولائی میں ہماری اپیل کا جواب دیا، انہوں نے امن کے لیے ذمہ دارانہ اور ضروری آپشن کا انتخاب کیا۔

میکرون کا کہنا تھا کہ اسپین، آئرلینڈ، ناروے اور سوئیڈن بھی اسی راستے پر گامزن ہیں۔

واضح رہے کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کانفرنس جاری ہے جس کی سربراہی فرانس کے صدر ایمانویل میکرون اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کر رہے ہیں۔ 

اس کانفرنس میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کی جائے گی۔ 

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا 80 واں اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔

ترجمان وائٹ ہاؤس کیرولین لیوٹ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ اجلاس کے سائیڈ لائن میں عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔

ٹرمپ کی پہلے اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ملاقات ہوگی، صدر ٹرمپ پاکستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکیہ، مصر، اردن اور انڈونیشیا کے سربراہان سے بھی ملیں گے، یوکرین، ارجنٹائن اور یورپی یونین رہنماؤں سے بھی ٹرمپ کی ملاقات ہوگی۔

فلسطین سے متعلقہ کانفرنس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار شریک ہوں گے۔

تجارتی جنگ میں چین کا جوابی وار، امریکی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کردیا

چین نے امریکا کی جانب سے گزشتہ روز عائد کیے گئے تجارتی ٹیرف کے جواب  میں امریکی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کردیا۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے چینی مصنوعات کی درآمد پر مجموعی طور پر 54 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا جس کے جواب میں چین نے امریکی مصنوعات کی درآمد پر 34 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا ہے۔
تاہم چین کی جانب سے صرف امریکی مصنوعات پر ٹیرف ہی عائد نہیں کیا گیا بلکہ چینی وزارت تجارت نے 11 امریکی کمپنیوں کو ’غیر معتبر اداروں‘ کی فہرست میں بھی شامل کر دیا ہے جس سے وہ چین میں کاروبار نہیں کر سکیں گی۔
اس کے علاوہ چین نے  امریکی ٹیرف کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں مقدمہ میں بھی دائر کردیا ہے۔
 چین نے 7 معدنیات کی برآمدات پر بھی سخت پابندیاں عائد کر دیں ہیں، ان معدنیات میں  گیڈولینیم  اور یٹریئم  بھی شامل ہیں جو طبی آلات اور الیکٹرانکس کی تیاری میں اہم ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں چین کے کسٹمز حکام نے امریکی چکن کی درآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ چین کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا اطلاق 10 اپریل سے ہوگا۔
امریکی ٹیرف
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو دنیا کے مختلف ممالک پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا۔
صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جوابی ٹیرف کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے اور خطاب میں کہا کہ جوابی ٹیرف کا نفاذ امریکا کے لیے اچھا ہوگا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان، چین اور ترکیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ امریکی صدر نے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جو 9 اپریل سے نافذ العمل ہو گا۔
ٹرمپ کا کہنا تھاکہ یورپی یونین پر 20 فیصد، چین پر 34 فیصد اور جاپان پر 24 فیصد ٹیرف عائد کریں گے جبکہ بھارت پر 26 فیصد اسرائیل پر 17 فیصد اور برطانیہ پر 10 فیصد ٹیرف عائد ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عالمی ٹیرف میں اضافے کے اعلان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ 1500 پوائنٹس گر گئی۔
مغربی میڈیا کے مطابق ٹیرف بڑھانے کے اعلان کے بعد دنیا بھر کی مالیاتی منڈیاں شدید دباؤ میں ہیں تاہم اب تک سب سے زیادہ نقصان امریکی اسٹاک مارکیٹ کو پہنچا ہے، یہ کوویڈ وبا کے بعد سے امریکی اسٹاکس کی بدترین کارکردگی ہے۔

ٹرمپ کا افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ اور بگرام ائیر بیس کا کنٹرول واپس لینے کا اعلان

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑا گیا اسلحہ اور بگرام ائیر بیس واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلاء کے طریقہ کار کو ناقص قرار دیتے ہوئے اربوں ڈالر کا فوجی ساز و سامان چھوڑنےکا ذمہ دار جو بائیڈن انتظامیہ کو قرار دیدیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے امریکا کا افغانستان کو اربوں ڈالر دینا میرے لیے باعث فکر ہے، افغانستان سے انخلا میں اربوں ڈالر کا اسلحہ اور فوجی سامان وہیں چھوڑ دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا ہم نے 70 ہزار گاڑیاں پیچھے چھوڑ دیں، افغان طالبان 7 لاکھ77 ہزار رائفلیں، 70 ہزار بکتربند ٹرک اور گاڑیاں بیچ رہے ہیں، چھوڑا گیا امریکی اسلحہ واپس لیں گے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا امریکا کو بگرام ائیربیس پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے تھا، بگرام انتہائی اہم ائیر بیس ہے، بگرام ائیر بیس چین پر نظر رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے، ہم بگرام ائیر بیس افغان طالبان سے واپس لیں گے، بائیڈن انتظامیہ کی انخلا میں ناکامیوں کے ذمہ داروں کو نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان پاکستان میں فتنۃ الخوارج کو دہشتگردی کیلئے مالی اور آپریشنل سپورٹ کر رہے ہیں، 2024 میں 600 سے زائد حملوں میں بیشتر افغان سرزمین سے کیے گئے۔
امریکی وزارت دفاع کے مطابق 2021 تا 2025 امریکا نے افغان دفاعی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان دیا، افغان فورسز کو طیارے، اسلحہ، گاڑیاں اور مواصلاتی نظام دیا گیا۔