کتنا بدل گیا عمان

کتنا بدل گیا عمان

اِس بار مسقط (عمان) کی تیاری تھی اورمیں سوچ رہا تھا کہ اسی بہانے میرا’مسقط‘ بھی پورا ہوجائے گا۔مسقط میں ہر سال وسیع پیمانے پر ’پاکستان فیسٹیول ‘ کا انعقاد کیا جاتاہے جس کے روحِ رواں معروف شاعر قمرریاض ہیں۔ یہ بھائی صاحب لوگوں میں محبتیں اور آسانیاں بانٹنے کے لئے دنیا میںبھیجے گئے ہیں۔جہاز نے لاہور ائیرپورٹ سے اڑان بھری تو میں نے حسبِ عادت سامنے لگی اسکرین پر نقشہ کھول لیا۔پتا چلا کہ جہاز جڑانوالہ، فیصل آباد سے ہوتا ہوا بلوچستان کے راستے سمندر عبور کرکے عمان میں داخل ہوگا۔ ایک بار تو شک ہوا کہ شائد جہاز بائی روڈ جائے گا ، پھر کھڑکی میں نگاہ ڈالی اور بادلوں کو نیچے پایا تو تھوڑا اطمینان ہوا۔ عمان چونکہ ایک گرم ملک ہے لہٰذا یہاں سفید اور آف وائٹ کلر کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ مسقط ایئر پورٹ انتہائی خوبصورت اور آرٹ کا باکمال نمونہ ہے۔ ایئرپورٹ پر امیگریشن کائونٹر پر برادرم یاسر پیرزادہ کے بلیو پاسپورٹ کو دیکھتے ہی جانے کی اجازت مل گئی جب کہ مجھے اور اجمل شاہ دین صاحب کو روک لیا گیا ۔یقیناً ہم شکل سے ہی مشکوک لگتے ہیں۔ امیگریشن افسر نے غور سے ہمارے پاسپورٹ دیکھے ، پھر انگلش میں پوچھا’’کدھر؟‘‘۔ میں نے جھٹ سے موبائل نکالا اور قمر ریاض کی تصویر نکال کر سامنے کر دی۔ افسر کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے آثار ابھر آئے، اس نے محبت بھری نظروں سے تصویر کو دیکھا اور پوچھا’’یہ کون ہیں؟‘‘۔میں نے اس کی بدقسمتی پر آہ بھری اور رازداری سے بتایا کہ یہ بڑے معروف شاعر ہیں اور انہوں نے مجھے پاکستان فیسٹیول میں بطور مزاح نگار بلایا ہے۔ افسر نے سرہلایا اور پاسپورٹ پر ٹھپہ لگا دیا۔عموماً امیگریشن افسروں کو کچھ سمجھ نہ آئے تو ٹھپہ جلدی لگا دیتے ہیں۔ائیرپورٹ سے سامان لئے باہر نکلے تو قمر ریاض اور ان کے جانثار ، امیر حمزہ، عمار حمزہ، ولید شاہ اور ان کی ٹیم پھول لئے موجود تھی۔ باہر آتے ہی احساس ہوا کہ گرمی زیادہ نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔ہمارے قافلے میں پاکستان سے تھری جینئس(یاسر پیرزادہ ، اجمل شاہ دین اور خاکسار) کے علاوہ عباس تابش، صغریٰ صدف، ثاقب تبسم، ڈاکٹر پرویز چوہدری، ناصر کٹرا، وسیم شیخ، مخدوم شہاب الدین، کاشف مصطفیٰ اور میرا شہزادہ فرخ شہباز وڑائچ شامل تھے۔کچھ دن بعد ہمیں استاد محترم عطاء الحق قاسمی اور عذیر احمد نے بھی جوائن کرنا تھا اور صحیح محفل کا لطف بھی تب ہی آنا تھا۔ قافلہ ہوٹل کی طرف روانہ ہوا۔
مسقط کی فضا میں ایک عجیب سا ٹھہرائو ہے۔یہ سکون ہے یا سکوت اندازہ لگانا کافی مشکل ہے۔ یہاں آخری درجے کی صفائی نظر آتی ہے ، ٹریفک قوانین کی انتہائی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔ چونکہ رائٹ ہینڈ ڈرائیو ہے لہٰذا گاڑی میں بیٹھے ہوئے یہی محسوس ہوتا رہا کہ ہم غلط رُخ پر جارہے ہیں۔احباب کی زبانی پتا چلا کہ یہاں گالی کوئی نہیں دیتا، سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔یہ عجیب بات تھی تاہم ایک پٹرول پمپ پر رکے تو کسی طرف سے پنجابی کی ایک شاندار گالی سنائی دی اور دل خوش ہوگیا۔ فوراًقمر ریاض کو توجہ دلائی کہ حضور آپ کی بات غلط ثابت ہوگئی۔ جواب بھی فوراً آیا کہ یہ گالی عمان کے مقامی لوگ نہیں دیتے۔ گالی دینے والا اور کھانے والا دونوں پاکستانی ہیں۔مسقط میں بنگلہ دیشی بہت زیادہ ہیں اور زیادہ تر محنت مزدوری کے کاموں سے وابستہ ہیں۔ مقامی لوگ اس لئے بھی بنگلہ دیشیوں کو پسند کرتے ہیں کہ یہ لوگ کم پیسوں میں زیادہ کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ دوسری مانگ یہاں فلپائنی خواتین کی ہے جو عموماً گھروں میں کام کرتی ہیں ، ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وقت کی بہت پابند ہوتی ہیں اور انتہائی سلیقے سے اپنا کام سرانجام دیتی ہیں۔مسقط کے ایک طرف پہاڑی سلسلہ ہے ، دوسری طرف سمند ر ہے۔بقول ضمیر جعفری’اک طرف پہاڑی ہے اک طرف سمند ر ہے…اور باقی جو کچھ ہے بس اسی کے اندر ہے‘۔
بیرون ملک ’پاکستان فیسٹیول‘ جیسی تقریب کو آرگنائز کرنا بہت مشقت طلب کام ہے۔ مہمانوں کے قیام و طعام کا بندوبست کرنا، ان سے رابطے میں رہنا، مختلف مقامات پر لے جانا …گویا ہمہ وقت حاضر رہنا۔ لیکن قمر ریاض ایک جادوئی شخصیت کا نام ہے جو بہترین آرگنائزرہیں۔ ایک اچھا کام یہ ہوا کہ کچھ ہی دیر میں سارے دوست آپس میں گھل مل گئے۔ یہاں عامرنام کے دو تین دوست ملے اور سب کی محبتیں ایک سے بڑھ کر ایک رہیں۔میں نے ایک چیز نوٹ کی کہ عمان میں رہنے والا ہر شخص اپنے سلطان سے بہت خوش ہے اور اُن کے لئے خیر کے کلمات کہتا نظر آتاہے۔ کسی حکمران کے لئے اُس کی رعایا گھروں میں بیٹھی بھی دعائیں کرے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست واقعی ماں کا رول ادا کر رہی ہے۔ہوٹل پہنچ کر سب اپنے اپنے کمروں میں گھس گئے اور طے پایا کہ کچھ آرام کرنے کے بعد آٹھ بجے ڈنر پر ملتے ہیں۔ مجھے چوں کہ نہانے کا بہت شوق ہےلہٰذا جاتے ہی شاور کھولا اور ٹھنڈے پانی نے جسم میں کپکپی طاری کردی، مجبوراً گرم پانی سے نہانا پڑا۔ دیگر دوستو ں کا بھی یہی حال تھا۔مڈ ل ایسٹ کے ممالک میں گوشت بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔میں چونکہ بڑے کا ادب اور چھوٹے کا احترام کرتا ہوں لہٰذا چکن کے علاوہ کوئی اور گوشت کھائوں تو حالت غیر ہوجاتی ہے۔ (جاری ہے)