ڈیجیٹل انسان

ڈیجیٹل انسان

لاہور: (مقصود احمد) طویل عرصے سے ہم روبوٹس کے متعلق سنتے آرہے ہیں ، وقت کے ساتھ ساتھ عقل انسانی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے نئی سے نئی ایجادات کرتی چلی گئی۔شروعاتی دور میں ربورٹس کو بہت سطحی سائنس کی مدد سے بنایا گیا لیکن جیسے جیسے سائنس میں انقلاب برپا ہوتا گیا ویسے ہی ربورٹس بھی جدید ہوتے گئے۔ مصنوعی ذہانت نے انسانیت کو ایک نئی دنیا سے متعارف کروایااور آج ہماری روزمرہ زندگی میں زیادہ تر کام ہم اسی مصنوعی ذہانت کی مدد سے سرانجام دیتے ہیں خصوصاً موبائل فون۔ موجودہ تمام ٹیکنالوجی اسی کی مرہون منت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ترقی کو ایک مقابلہ سمجھ کر آگے بڑھا رہے ہیں اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی اس دوڑ نے مصنوعی ذہانت جیسی جدید ٹیکنالوجی کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔حال ہی میں چائنا کی مشہور شخصیت سائمن جونگ نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر اپنا ایک گانا ریلیز کیا جس کو 15ملین سے زیادہ لوگوں نے دیکھا۔ اس ویڈیو کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں جون جونگ خود نہیں گا رہے تھے بلکی ان کا ورچوئل یا ڈیجیٹل ہم شکل تھا۔یہ ڈیجیٹل ہم شکل مصنوعی ذہانت کی مدد سے بائیڈو نامی ایک کمپنی کی جانب سے بنایا گیا تھا اور صرف شکل ہی نہیں بلکہ اس میں گانے میں استعمال ہونے والی آواز اور موسیقی بھی مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہی بنائی گئی تھی۔ اسے مصنوعی ذہانت سے بنائی جانے والی چائنا کی پہلی ویڈیو بھی کہا جا رہا ہے۔
اب ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرنے والے اس ڈیجیٹل انسان کو اور کن مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر مستقبل میں اس کا استعمال وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے تو اس کے فوائد اور نقصانات کیا ہوں گے؟اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے دنیا بھر میں پیشتر انڈسٹریز ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ترقی کر رہی ہیں بلکہ معاشی طور پر بھی اپنے کاروبار کو آگے بڑھا رہی ہیں۔اس وقت بھی دنیا کے کئی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں اس ڈیجیٹل انسان کا استعمال کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق2030ء تک اس کی مارکیٹ 530ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
بائیڈو کمپنی کی رپورٹ کے مطابق یہ ڈیجیٹل انسان مستقبل میں کوئی معروف شخصیت یا آپ کا فنانشل ایڈوائز بھی ہو سکتا ہے۔دراصل مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک ایسا کیریکٹر بنایاجاتا ہے جو دکھنے میں بالکل انسان جیسا لگتا ہے۔ان کو انسان کے جیسا اس لئے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ وہ اصل انسان ا ن سے بات کرتے ہوئے زیادہ آسانی محسوس کریں۔آج تقریباً ہر کمپنی جو سروسز فراہم کرتی ہے اس کی سپورٹ کیلئے اپنی ایپلی کیشن یا ویب سائٹ پر ایک ونڈو رکھتی ہے جسے آٹو میٹڈ چیٹ بوٹس (Chat Bots)کے ذریعے چلایا جاتا ہے لیکن چیٹ بوٹس سے بات کرتے وقت انتہائی روکھا پن محسوس ہوتا ہے۔اسی لئے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسا ڈیجیٹل انسان تیار کیا گیا ہے جس سے با ت کرتے ہوئے زیادہ اپنا پن محسوس ہو اور ایسا محسوس نہ ہو کہ انسان کسی مشین یا پروگرام سے بات کر رہا ہے۔اس ٹیکنالوجی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں Super Brainنامی پروگرام کے ذریعے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے ، یہ آپ کی ہر بات لمحوں میں سمجھ سکتی ہے اور کسی بھی وقت کہیں بھی آپ آسانی سے اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی پر کافی عرصہ سے کام کیا جارہا ہے۔بائیڈو کمپنی نے 2019ء میں ایک بینک کے ساتھ اشتراک کیا جس کے ذریعے انہوں نے ڈیجیٹل ملازمین کی بھرتی شروع کی۔آج اسی بینک کے 4لاکھ 60ہزاز صارفین انہیں ڈیجیٹل ملازمین کے ساتھ رابطے میں ہیں جنہیں بینک نے 2019ء میں بھرتی کیا تھا۔ آج بھی اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کے 2022ء میں بیجنگ ونٹر گیمز کے دوران سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم افراد کیلئے اشاروں کی زبان میں کمنٹری کی گئی تھی اور کمنٹری کرنے والی کمنٹیٹر دراصل ایک Digital Humanتھی۔
ان کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ کسی بھی انسان کی حرکات، عادات اور زبان کی ہو بہو نقل کر سکتے ہیں اور یہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کتابیں پڑھ سکتے ہیں ، کوئی بھی پیغام بڑھ کر اس کا جواب دے سکتے ہیں اور اگر کسی نے ایسی بات کی ہو جس کا مطلب کہی ہوئی بات سے مختلف ہو یہ اس کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ ڈیجیٹل انسان ،ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیںتاکہ ان کے بعد آنے والی ڈیجیٹل انسانوں کی نئی قسم ان سے زیادہ ذہین اور باصلاحیت ہو۔یہ بات حیران کن ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے چلنے والی ایک ٹیکنالوجی اپنے مستقبل کے لئے اتنی فکر مند ہے کہ موجودہ انسانوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے انسانی جذبات و حرکات کا مشاہدہ کر رہی ہے تاکہ اس کے بعد آنے والی ٹیکنالوجی اس سے بھی زیادہ بہتر انداز میں انسانوں کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر سکے۔
اگر اس تھیوری کا بغور مطالعہ کیا جائے کہ کیا مصنوعی ذہانت انسانوں پر غالب آ جائے گی تو ایسے بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں جن کو پڑھ انسان کی عقل ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا ضرورت سے زیادہ استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات جو یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی ایسے ہاتھوں میں چلی گئی جو انسانیت سے کچھ خاص لگاؤ نہیں رکھتی تو یقینا اس کے نقصانات ہو سکتے ہیں۔