ملکی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو 1970 کے انتخابات کے علاوہ ہر جماعت خواہ وہ جیتنے والی جماعت ہو یا ہارنے والی سب نے دھاندلی کا رونا رویا۔ شفاف انتخابات کی ڈیمانڈ تو ہر جماعت کرتی رہی مگر کسی جماعت نے 75 سال میں پارلیمنٹ میں ایسی ٹھوس آئینی ترمیم نہیں کی جس سے الیکشن کمیشن اور نظامِ انتخاب مضبوط ہو۔ 1990 کی دہائی میں ہر انتخاب کو دھاندلی زدہ قرار دیا گیا۔ جس کی ایک مثال اصغر خان کیس میں ملتی ہے۔ اسی طرح 2002 کے انتخابات جو پرویز مشرف کی زیر نگرانی ہوئے اسے بھی کسی حد تک دھاندلی زدہ کہا جاتا ہے کیونکہ ان انتخابات میں مسلم لیگ ق کا وجود عمل میں آیا اور فیصل صالح حیات گروپ بھی پرویز مشرف کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ 2008 کے انتخابات میں عمران خان نے تو بائیکاٹ کیا مگر چوہدری پرویز الٰہی اور ق لیگ نے ان انتخابات میں امریکہ کی مداخلت کا الزام لگایا۔ اس کے بعد 2011میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لاہور مینار پاکستان میں جلسہ عام کر کے نوازشریف اور آصف زرداری کے خلاف اعلان جنگ کیا اور تحریک انصاف کو ایک نئی موومنٹ ملی۔مگر 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ، ق لیگ، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام ف، اے این پی کم و بیش ہر جماعت نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ اسی طرح ن لیگ کے قائد نواز شریف کی وفاق، شہباز شریف کی پنجاب، تحریک انصاف کی کے پی کے اور بلوچستان میں مخلوط حکومت بنی۔ 2014 میں ڈاکٹر طاہر القادری میڈیا میں پیش پیش ہونے لگے اور اپنا بیانیہ قوم کے سامنے رکھنے لگے۔ 2014 میں مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور صدر ق لیگ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے لندن میں ملاقات کی اور نظام اور حکومت گرانے کی بات کی۔ ان رہنماؤں کی الطاف حسین سے بھی بات چیت ہوئی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی ملاقات میں دو اور لوگ بھی تھے جن میں ایک سابق جنرل اور ایک صحافی بھی شامل تھے۔ اب اس خبر میں کتنی سچائی ہے کتنا جھوٹ یہ وقت ہی بتائے گا البتہ اس وقت بقول مرحوم مشاہد اللہ کے DG.IB نے نواز شریف کو کچھ ایسی ہی انفارمیشن دی تھی۔یہ وہ سوالات ہیں جو وقت خود ثابت کرے گا کہ ایسا کیوں ہوا۔ الغرض اس نظام نے بھی ملک اور قوم سے اعتبار اور بھروسے کو اٹھا دیا ہے۔ آج کوئی لیڈر صاف نیت سے اٹھے گا تو قوم اس پر اعتماد کرنے میں برسوں انتظار کرے گی۔ ایک مسلسل ربط بہت اہم ہوتا ہے مگر افسوس جلد بازی اور فوری نتیجہ چاہنے والے قربانیاں دے کر بھی خاموش ہو جاتے ہیں اور قوم کا لیڈر سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے ایسے کلچر اور نظام کو بھی بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ الغرض 2018 کے انتخابات میں عمران خان کی حکومت تو بنی مگر مولانا فضل الرحمن نے 2لانگ مارچ کئے پھر ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے بھی لانگ مارچ کئے۔ تحریک لبیک پاکستان کے بھی لانگ مارچ نظر آئے۔ متحدہ اپوزیشن کے اتحاد اور حکومتی اتحادی،BAP، متحدہ قومی موومنٹ کے تحریک عدم اعتماد پر بھرپور حمایت کے اظہار پر تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ رات 12بجے عدالت عظمیٰ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے کھولے گئے۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔ عمران خان کے جلسوں، لانگ مارچ اور پنجاب میں عجیب کشمکش رہی۔ ملک ایک عجیب سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور معیشت بد حالی کا شکار ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس سے متعلق فیصلے نے ایک مرتبہ پھر ملکی سیاست میں جلتی پر تیل ڈالنے جیسا کام کیا، شنید ہے کہ عنقریب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو حکومت الیکشن کمیشن سے نا اہل کروا کے ن لیگ کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے والی ہے۔ ادھر عمران خان نے 9حلقوں سے خود الیکشن لڑنے اور پریشر ڈالنے کی ٹھان لی ہے۔دوسری طرف اگر نظام کی بات کی جائے تو آج تک ملک کے سیاسی، انتخابی، معاشی، خارجہ پالیسی میں کسی قسم کی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ آج تک انتخابی نظام جو کہ ہمیشہ سیاسی بے چینی کا باعث بنا شفاف اور نئی پڑھی لکھی قیادت کو آگے لانے کا سبب نہیں بن سکا۔ گویا بنیادی طور پر ملک کی موجودہ صورت حال کی اصل وجہ یہ انتخابی نظام ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اپنی سیاسی و مذہبی جماعتوں میں آمریت و فیملی ازم کو نافذ کئے ہوئےہیں جبکہ بڑے بڑے مذہبی خاندان بھی آگے اپنی فیملی کو صدارت دیتے نظر آتے ہیں ، جماعتوں میں خاندانی اجارہ داری نافذ ہوگی تو ملکی سیاسی مذہبی نظام پر بھی خاندانی اجارہ داری ہوگی۔ہمیں ملکی نظام کو بدلنے و بہتر کرنے کے لئے پارٹی سسٹم کو خاندانی اجارہ داری سے پاک کرنا ہوگا اور سخت قانون پاس کرنا ہوں گے تاکہ نئی پڑھی لکھی قیادت کو موقع مل سکے ۔ آج ملک کا بچہ بچہ سیاسی، مذہبی و دفاعی لیڈر شپ کو دیکھ رہا ہے کہ کب یہ مل بیٹھ کر ملکی نظام میں بہتری کیلئےلانگ ٹرم اسٹرٹیجی پر دستخط کریں گے۔