وزیراعظم کا دورۂ قطر

وزیراعظم کا دورۂ قطر

وزیراعظم شہباز شریف کے دو روزہ دورۂ قطر کے پہلے دن قطری وزیراعظم اور وزیر داخلہ شیخ خالد بن خلیفہ بن عبدالعزیز الثانی سے ملاقات اور وفود کے ہمراہ مذاکرات، پاک قطر تجارت و سرمایہ کاری گول میز کانفرنس، ممتاز تاجر رہنمائوں سے بات چیت، قطر انوسٹمنٹ اتھارٹی کے وفد سے ملاقات سمیت مصروفیات کی جو تفصیلات سامنے آئیں وہ مختلف شعبوں میں دونوں برادر ملکوں کے بڑھتے تعاون کی آئینہ دار ہیں۔ پاکستان جن ملکوں کے دوستانہ تعلقات پر فخر کرتا ہےان کے اولین ناموں میں قطر شامل ہے۔ پچھلے برسوں کی عالمی کساد بازاری اور معاشی مشکلات کی سنگین صورتحال میں جن دوست ممالک نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ان میں چین، سعودی عرب اور قطر شامل ہیں جبکہ پچھلی ایک دہائی کے دوران اسلام آباد اور دوحہ کے درمیان تجارت کے حجم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بعض مبصرین دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے اسٹرٹیجک رابطوں کو حوصلہ افزا پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پیر 22اگست کو ہی وفاقی کابینہ نے فیفا ورلڈ کپ کی سیکورٹی کے لئے قطر حکومت اور پاک فوج کے درمیان معاہدے کی منظوری دی ہے۔ قطر میں 20نومبر سے 18دسمبر تک جاری رہنے والے فیفا ورلڈ فٹ بال کپ مقابلے میں 32 ٹیمیں شریک ہوں گی۔ پیر ہی کے روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ قطر مالی بحران سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو دوطرفہ سپورٹ کی مد میں 2ارب ڈالر فراہم کرے گا۔ بریفنگ کےبموجب آئل فنانسنگ کی مد میں سعودی عرب پاکستان کو ایک ارب ڈالر دے گا جبکہ متحدہ عرب امارات سے بھی ایک ارب ڈالر ملیں گے۔ اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ قطر، سعودی عرب اور عرب امارات سے یہ فنڈز آئندہ 12ماہ میں ملنے کے امکانات ظاہر کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کا اس سال اپریل میںوزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد قطر کا یہ پہلا دورہ ہے۔ ان کے ساتھ اعلیٰ سطح کا ایک وفد بھی دوحہ پہنچا ہے۔ اس دورے کے نتائج اگرچہ آج(بدھ) کی ملاقاتوں اور سمجھوتوں کے بعد اعلانات و بیانات کی صورت میں متوقع ہیں۔ مگر منگل کے روز دوحہ سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے اندرون ملک بجلی کے بلوں میں تاجروں پر فکس ٹیکس، ایک کروڑ 71 لاکھ صارفین اور تین لاکھ ٹیوب ویلز کے لئے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ختم کرنے کا جو اعلان کیا، اس سے بیرون ملک سفر کے دوران بھی ہموطنوں کو سہولت فراہم کرنے کی فکر اور آئی ایم ایف کو قائل کرنے کے رابطوں سمیت مسلسل مصروفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک پاک قطر تجارتی شراکت داری میں مضمرو نمایاں امکانات کا تعلق ہے، 2013ء میں پاکستان سے سات کروڑ 87لاکھ 64 ہزار ڈالر کی اشیا قطر کو برآمد کی گئیں جبکہ ایک ارب 64کروڑ 22لاکھ ڈالر کی اشیا درآمد کی گئیں، 2020 میں پاکستان نے 15کروڑ ڈالر کے لگ بھگ اشیاء قطر کو برآمد کیں جبکہ درآمدات ایک ارب 32کروڑ ڈالر رہیں۔ پاکستان کی برآمدات،جو اس عرصے میں دگنی ہو گئیں، مزید وسعت کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسی حقیقت کے پیش نظر ملاقاتوں، بات چیت اور وفود کی سطح پر مذاکرات میں باہمی احترام اور حمایت پرمبنی تعلقات میں اضافے کی ضرورت اجاگر کی اور اپنی حکومت کی جانب سے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ دونوں وزرائے اعظم نے دوطرفہ تعاون میں مزید اضافے کے جس عزم کا اعادہ کیا اس کے پیش نظر یہ توقع بے محل نہیں کہ دونوں ملکوں کے بہترین روایتی سیاسی تعلقات جلد ایک جامع اقتصادی شراکت داری میں ڈھل جائیں گے۔