دیوان خاص حسینیؓ فکر لازوال و بے مثال

دیوان خاص حسینیؓ فکر لازوال و بے مثال

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ’’ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے اس سے محبت کی، گویا اس نے مجھ سے محبت کی۔ اے اللہ جو حسین کو دوست رکھے، تُو بھی اسے دوست رکھ اور جو حسین سے دشمنی رکھےتو بھی اس سے دشمنی رکھ۔‘‘
اس حدیث مبارکہ کی عملی تفسیر ہمیں کربلا کے میدان میں نظر آتی ہے، ایک طرف امام حسینؓ سے محبت رکھنے والے رفقا اور اقربا ہیں تو دوسری طرف امام عالی مقامؓ کے ذریعے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا پہنچانے والا یزیدی ٹولہ۔
امام عالی مقامؓ نے کربلا کا سفر جنگ کے ارادے سے نہیں کیا بلکہ انھوں نے تو کعبتہ اللہ کی عظمت اور حرمت کو بچانے کے لئے حج کا ارادہ بھی ترک کر دیا اور اسے عمرے سے بدل دیا۔ امام حسین علیہ السلام کے نزدیک دنیاوی فتوحات چنداں اہمیت نہ رکھتی تھیں کیونکہ وہ خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعلق رکھتے تھے ۔ وہ اسی شجر طیبہ کا حصہ تھے جس کی تعریف اور توصیف خدا تعالی نے قرآن پاک میں بھی بیان کی ہے کہ ’’ اے اہل بیت رسولؓ ، اللہ چاہتا ہے کہ تم سے نجاست اور ناپاکی کو اس طرح دور کر دے جیسے کہ دور کرنے کا حق ہے۔ لہذا قرآن مجید کی اس آیت سے بھی یہ ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق بھی اہل بیتؓ سے صرف وہی محبت کرے گا جو پاکیزگی سے محبت رکھے گا ، جس کو نیک نامی سے سروکار ہو گا اور جو گندگی سے نفرت کرے گا۔
لہذا امام حسینؓ کا کربلا کا قصد کرنے کا بنیادی مقصد دین اسلام اور شریعت محمدیﷺ کو اسکی اصل روح میں بحال کرنا تھا، وہ تمام تر غلاظتیں ختم کرنا ان کا مشن تھا جس کے ذریعے اسلام کے اصولوں کا تمسخر اڑایا جا رہا تھا۔
امام حسین علیہ السلام نے اسلامی شعائر کے تقدس کی خاطر اپنا گھر لٹا دیا لیکن دین اسلام پر آنچ تک نہ آنے دی۔ قرآن اور شریعت کو اہل بیت اطہارؓ کی بیان کی ہوئی تشریح کے بغیر نہ تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر عمل پیرا ہونے کا دعوی کیا جا سکتا ہے کیونکہ اہل بیت اطہارؓ اور قرآن پاک دونوں ہی ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے ہیں۔
آج 1400 سال سے اوپر کا عرصہ گذر گیا لیکن حسینی فکر 61 ہجری میں بھی زندہ تھی اور آج بھی 1444 ہجری میں بھی زندہ ہے۔ آج کسی بھی مذہب اور فرقہ کا ماننے والا ہو کوئی بھی یزید کا نام نہیں لینا چاہتا، کوئی بھی امام حسینؓ کے مشن سے ہٹنا نہیں چاہتا بلکہ ہر کوئی اپنے اپنے رنگ اور انداز میں امام مظلومؓ کے لئے اپنی عقیدت کا اظہار کرتا ہے۔ کوئی نذر نیاز اور سبیل کا اہتمام کرتا ہے تو کوئی مجالس اور جلوس کا۔ کوئی رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہوتا ہے تو ہماری فوج ، پولیس اور سکیورٹی فراہم کرنے والے ادارے بھی عزاداروں کے تحفظ کے لئے ہر دم تیار رہتے ہیں۔
یہ سب بھی حسینیؓ فکر کو خراج عقیدت پیش کرنے کی مختلف جہتیں اور طریقے ہیں۔ ہر کوئی ان کی یاد اپنے دلوں میں بسانا چاہتا ہے گویا صرف کربلائے معلیٰ ہی امامؓ کا مدفن نہیں بلکہ ہر دل جو باضمیر ہے خواہ وہ کسی بھی رنگ و نسل کا ہو، امام عالی مقامؓ کا روضہ اقدس بن کر رہ گیا ہے یعنی ہر پاکیزہ دل میں کربلا امام حسین علیہ السلام نے بسا دی ہے۔ دین اسلام کو زندہ و جاوید امام مظلومؓ نے کر دیا ہے۔
امام حسینؓ نے اپنی شہادت سے ہر مردوزن کی عزت و آبرو اور تکریم میں اضافہ کیا ہے، آج اسلام کے دامن میں ششماہے علی اصغرؓ کی قربانی ہے، عون و محمدؓ کی پیاس ہے، بی بی سکینہؓ کی تشنہ لبی ہے، بی بی زینب سلام اللہ علیہ کے خطبات ہیں اور جناب سجاد علیہ السلام کے سجدے اوربندگی کا اظہار ہے ۔ آج اسلام کا دامن خالی نہیں بلکہ امام حسینؓ کی لازوال قرباینوں سے بھرا ہوا ہے ۔
اللہ تعالی بہت بڑا احسان کرنے والا اور محسن عظیم ہے، امام حسین علیہ اسلام نے اللہ کے دین کو سربلندی بخشی تو خدائے بزرگ و برتر نے امام مظلومؓ کے ذکر کو دوام بخش دیا۔ قیامت تک پوری دنیا حسینؓ زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد کے نعرے بلند کرے گی اور اس حسینیؓ فکر پر فخر کرے گی ۔
معروف شاعر افتخار عارف نے امام حسینؓ کی کیا خوبصورت منقبت پیش کی:
شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؓ کا ہے
زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؓ کا ہے
سوال بیعت شمشمیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسینؓ کا ہے ۔
فرات وقت رواں دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سربلند ہے اب بھی وہ سر حسینؓ کا ہے