حکمران اتحاد الجھاؤ کا شکار

حکمران اتحاد الجھاؤ کا شکار

لاہور: (سلمان غنی) وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کیلئے ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے ان پر فیول ایڈجسٹمنٹ ختم کردیا گیا ہے جس سے 71 لاکھ صارفین کو فائدہ ہوگا۔ مذکورہ اقدام بارے خود وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں ہر کام کیلئے آئی ایم ایف سے مشورہ کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کے نئے اعلان سے 3لاکھ ٹیوب ویلز کو بھی سرچارج سے استثنیٰ دیا گیا ہے اور تاجروں پر فکس ٹیکس کے خاتمہ کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ اس اقدام سے 42ارب کا خسارہ ہوگا۔ وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے یہ اعلان اس ردعمل کے باعث ہوا جو ملک بھر میں دیکھنے میں آ رہا تھا اور تاجروں کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ دن بدن وسیع ہوتا جارہا تھا۔ اس طرح کا ردعمل جب بھی آتا ہے تو حکومتوں کو ان کا نوٹس لینا پڑتا ہے کیونکہ مظاہروں کا یہ سلسلہ خود حکومت کے حوالے سے بھی خطرناک بن جاتا ہے۔
ایک عرصہ سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا عمل خود حکومتوں کی غیر مقبولیت کا باعث بن جاتا ہے مگر ایسا کیوں ہوا اور خصوصاً بجلی جیسی بنیادی سہولت خود عوام پر بجلی کے گرنے کا باعث بنتی جا رہی ہے جس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کا معاہدہ ہے ۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں ہونے والی شکست کا جائزہ لیا جائے تو اس کی بڑی وجہ پیٹر ولیم اور بجلی کی قیمتیں تھیں جس نے عوام کی زندگیاں اجیرن بنا رکھیں تھیں اور اب بھی وہی رجحان طاری ہے ۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان خود پنجاب میں پنجاب کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے اور اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو بجلی کے بل ممکن حد تک سب سے زیادہ پنجاب میں ہی ادا ہوتے ہیں۔ اس کا اتنا ہی زیادہ ردعمل پنجاب میں آیا ہے۔ اگر بجلی کے بلوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں اصل اضافہ فیول ایڈجسٹمنٹ کا ہے اور بجلی کی پیداوار میں آنے والی لاگت بھی بڑھی ہے۔ یہ سارا اضافہ عوام سے وصول کیا جاتا ہے اس طرح سے سارا بوجھ عوام پر آیا ہے۔
بجلی اور پیٹر ولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ براہ راست عام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کا ایک طوفان ہے جو رکنے میں نہیں آ رہا اور حکمران اتحاد جس میں پاکستان کی تمام قابل ذکر جماعتیں موجود ہیں سب اس طوفان کے باعث دفاعی محاذ پر کھڑی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف جن کے حوالے سے یہ تاثر عام تھا کہ ان کی قیادت میں گورننس کا عمل یقینی بن سکتا ہے اور قیمتوں میں اضافے کے رحجان پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ یہ تاثر بھی کسی حد تک غلط ثابت ہوا ہے۔ اب تو خود ان کی اپنی جماعت میں سے بھی ردعمل آنا شروع ہو گیا ہے کہ آخر ایسی کیا مجبوری تھی کہ ہم نے ایک ایسے وقت میں حکومت میں آنا گوارا کیا جب ماضی کی حکومت اپنی عدم مقبولیت کی انتہا پر تھی ،یہ فیصلہ کیونکر اپنے سر لیا گیا؟ حکمران اتحاد کی جانب سے مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا لہٰذا سب جماعتوں نے ملکر یہ بیڑا اٹھایا اور ہم پاکستان کو خطرناک زون سے باہر لے آئے ہیں لیکن اگر زمینی اور سیاسی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان بچانے کے اس عمل میں خود ان کی اپنی سیاست خطرناک زون میں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام الناس ان کی اس مجبوری کا ادراک اور احساس نہیں کر پا رہے اور حکومت کو بری الذمہ قرار دینا تو دور کی بات خود مہنگائی کے اس طوفان نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے خیالات اور جذبات نے انہیں قانونی محاذ پر شدید مشکلات سے دوچار کردیا ہے اور اب ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ عوام سے زیادہ عدالتوں کے رحم و کرم پر ہے۔
دوسری جانب خود مسلم لیگ (ن) کو درپیش مسائل بڑھ رہے ہیں اور اب اس حوالے سے چہ مگوئیاں عروج پر ہیں کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی وطن واپسی کی تیاریاں ہیں اور لیگی حلقے سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کی وطن واپسی ان کی عدم مقبولیت کا ازالہ کر پائے گی ۔کیا ایسا ممکن بن سکے گا؟ ان کی وطن واپسی ممکن ہوگی؟واقفان حال اس حوالے سے ان کی لندن میں سیاسی و غیر سیاسی ملاقاتوں کو اہم قرار دے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان کی واپسی کا عمل ایک طے شدہ پلان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ انہیں بھی حفاظتی ضمانت مل سکتی ہے اور بعد ازاں ان کی نااہلی کو اہلیت میں تبدیل کرنے کیلئے پارلیمنٹ کا سہارا لیا جا سکتا ہے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق نوازشریف کی وطن واپسی کا عمل اور ان کا سیاسی کردار خود عمران خان کے مقدمات کے ساتھ جڑا نظر آ رہا ہے اور آنے والے چند ہفتوں میں حالات اور واقعات اس سطح پر پہنچ سکتے ہیں کہ نوازشریف کی وطن واپسی ممکن بن جائے۔