ایران سے گیس پائپ لائن، پاکستان کا انٹرنیشنل لا فرم کی خدمات لینے پر غور

ایران سے گیس پائپ لائن، پاکستان کا انٹرنیشنل لا فرم کی خدمات لینے پر غور

پاکستان کی حکومت ایران سے گیس پائپ لائن کے منصوبے کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے بین الاقوامی لقانونی فرم سے رابطے پر غور کر رہی ہے۔
عرب نیوز نے منگل کو پاکستان کے ایک حکومتی عہدے دار کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان ایران پر امریکی پابندیوں میں چھوٹ کے آپشنز کی تلاش کے لیے قانونی فرم کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب چند دن قبل امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو نے کانگریس کی سماعت کے دوران بتایا تھا کہ امریکی حکومت پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو روکنے پر کام کر رہی
پاکستان کے حکومت اس معاملے میں امریکہ کو قائل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ کسی طرح اس منصوبے کو مکمل کر کے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
پاکستان کی وزارت توانائی کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہم مختلف آپشنز کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں کہ امریکی پابندیوں کا سامنا کیے بغیر ہم کیسے اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ آپشن بھی ہو سکتا ہے کہ کسی انٹرنیشنل لا فرم کی خدمات حاصل کی جائیں جیسا کہ ہم نے ماضی میں کیا گیا، جو اس منصوبے کو امریکی پابندیوں کی زد میں آنے سے محفوظ رکھنے کا مؤثر پلان تیار کر کے دے۔‘
سرکاری عہدے دار نے مزید بتایا کہ ’ابھی تک کچھ بھی حتمی نہیں ہے لیکن اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف سفارتی اور قانونی کارڈز ہمارے سامنے ہیں۔‘
’ہم امریکہ کے سامنے کچھ ایسی ٹھوس وجوہات رکھیں گے جو پاکستان کے لیے اس منصوبے کی اہمیت کو واضح کریں گی۔‘
دوسری جانب منگل ہی کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق سوال پر جواب میں کہا ہے کہ ’ہر ایک کو مشورہ دیتے ہیں ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے امریکی پابندیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اسسٹنٹ سکریٹری(ڈونلڈ لو) نے واضح کیا تھا ہم اس پائپ لائن کو آگے بڑھانے کی حمایت نہیں کرتے۔‘
پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کے معاہدے پر سنہ 2009 میں دستخط ہوئے تھے لیکن یہ منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔
پاکستان کو توقع ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ملک کی توانائی کی ضرورت کافی حد تک پوری ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں تجارتی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئے گی۔