انسانی اسمگلنگ، ویزا فراڈ میں ملوث 5 ملزمان گرفتار
اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) مئ انسانی اسمگلنگ اور ویزا فراڈ میں ملوث 5 خطرناک ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
ایف آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ ایف آئی اے گوجرانوالہ زون نے 5 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کیا جن کی شناخت منور اقبال، عمران خان، سعید، خالد خان اور صابر علی کے نام سے ہوئی۔
ملزمان کو گجرات اور گوجرانوالہ کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا جو انسانی اسمگلنگ اور ویزا فراڈ میں ملوث ہیں، ملزم عمران خان نے شہری کے بیٹے اور بھانجے کو اٹلی بھیجنے کیلیے 61 لاکھ روپے لیے اور متاثرین کو اٹلی کے بجائے دھوکا دہی سے لیبیا بھجوا کر روپوش ہوگئے۔
ترجمان نے بتایا کہ ملزم صابر علی نے شہری کو اٹلی بھیجنے کا جھانسہ دے کر 23 لاکھ روپے جبکہ ملزم منور اقبال نے شہری کو یونان بھجوانے کا جھانسہ دے کر 1 لاکھ 60 ہزار روپے۔ ملزم سعید نے دھوکا دہی سے شہری کو ترکی بھیجنے کیلیے 2 لاکھ روپے وصول کیے، ملزم خالد نے دبئی بھیجنے کا جھانسہ دے کر 2 لاکھ 80 ہزار روپے بٹورے۔
ایف آئی اے بتایا کہ گرفتار ملزمان پیسے وصول کرنے کے بعد روپوش ہوگئے تھے، ان کے دیگرساتھیوں کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے جا رہے ہیں، شہریوں سے گزارش ہے ذاتی دستاویزات کسی غیر متعلقہ شخص کو نہ دیں، ویزا حصول کیلیے ہمیشہ متعلقہ ملک کی ایمبیسی سے رابطہ کریں۔
انسانی اسمگلنگ اور ہیومن ٹریفکنگ میں کیا فرق ہے؟
اکثر اوقات لوگ انسانی اسمگلنگ اور انسانی ٹریفکنگ میں الجھ جاتے ہیں، اور ان دونوں میں فرق نہیں کر پاتے۔
امریکی ادارے آئی سی ای کے مطابق ہیومن اسمگلنگ اور ہیومن ٹریفکنگ دو ایسے جرائم ہیں جو بہت مختلف ہیں، اور ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہیومن ٹریفکنگ استحصال کی وہ شکل ہے جس میں مردوں، عورتوں یا بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے، یا تجارتی سطح پر جنسی کاروبار میں ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ہیومن اسمگلنگ وہ جرم ہے جس میں ایک ایسے شخص کو سروس فراہم کی جاتی ہے، جو رضاکارانہ طور پر کسی غیر ملک میں غیر قانونی داخلہ حاصل کرنا چاہتا ہے، اس سروس میں عام طور پر ٹرانسپورٹیشن (نقل و حمل) یا جعلی دستاویزات شامل ہوتی ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ جرم تو انسانی اسمگلنگ سے شروع ہو، لیکن جلد ہی یہ انسانی ٹریفکنگ میں بدل جائے۔ امریکی ادارے کے مطابق انسانی ٹریفکنگ جن کاروباری مراکز سے کی جاتی ہے عام طور سے ان میں ماڈلنگ اور ٹریول ایجنسیاں، روزگار دلانے والی کمپنیاں، بچوں کی دیکھ بھال اور بین الاقوامی میچ میکنگ سروسز اور مساج پارلر شامل ہیں۔
اس میں ملازمتیں فراہم کرنے والی یا طلبہ کی وہ ریکروٹمنٹ ایجنسیاں بھی شامل ہیں جن کے پاس لائسنس نہیں ہوتا، جو رجسٹرڈ نہیں ہوتیں، یا وہ لیبر قوانین کی خلاف ورزیاں کرتی ہیں۔
ٹریفکنگ میں ملوث گروہ کا لین دین ہمیشہ مشکوک انداز میں ہوا کرتا ہے، یہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے بیرون ملک رقوم کی منتقلی کرتے ہیں، یہ ٹرانزکشن تواتر کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے کاروبار کا پتا نہیں چل رہا ہوتا۔
ان ٹرانزیکشنز میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی کاروباری کسٹمر ہے جو انفرادی طور پر کسی کو رہائش/قیام فراہم کرنے، گاڑیوں کے کرائے باقاعدگی سے بھرنے، بڑی مقدار میں کھانے پینے کی اشیا خریدنے، اور ٹریفکنگ سے متاثرہ لوگوں کے لیے فارمیسیوں سے ادویات وغیرہ کی خریداری پر رقوم خرچ کر رہا ہے، ادارے اسی قسم کی مشکوک ٹرانزکشنز کے ذریعے ایسے گروہوں کو پکڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ہیومن ٹریفکنگ میں ایسے کاروباری مالکان بھی ملوث ہو سکتے ہیں جو تنخواہوں سے جڑے اخراجات کا ریکارڈ نہیں بناتے جیسا کہ تنخواہ، پیرول ٹیکس، سوشل سیکیورٹی وغیرہ۔ دیکھا جائے تو ان کا کاروباری ماڈل، بیان کردہ آپریشنز اور افرادی قوت کا سائز جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں ان کے اخراجات بہت کم ہوتے ہیں۔
ایسے ممالک انسانی ٹریفکنگ کے خطرے سے زیادہ دو چار ہوتے ہیں جہاں سے باقاعدگی کے ساتھ دوسرے ملک وائر ٹرانسفر (بینک اکاؤنٹ سے الیکٹرانکلی رقوم کی منتقلی) جاری رہتا ہے اور یہ پتا نہیں چلتا کہ کاروبار کیا ہے، یا یہ کہ قانونی مقصد کیا ہے۔ یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ دونوں اکاؤنٹس میں رشتہ کیا ہے۔
جہاں تارکین وطن کی آبادیاں زیادہ ہوں، ایسے ممالک سے ایسی رقوم کی آمد جو ترسیلات زیر (remittance) کے عام انداز سے مطابقت نہیں رکھتی، جیسا کہ جب ترسیلات زر بھیجی جاتی ہیں تو رقم وصول کرنے والوں کی لوکیشن کا پتا ہوتا ہے۔
ایک جائزہ چھوڑیں۔